لاہور (ویب ڈیسک) جب سے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم وجود میں آیا ہے ق لیگ ایک بار پھر اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ گزشتہ ہفتے جب وزیراعظم نے حکمران جماعتوں کو کھانے پر بلایا تو ق لیگ نے دعوت میں شرکت نہ کی چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ شرکت کی دعوت
براہ راست عمران خان کی طرف سے آنی چاہیے تھی،نامور کالم نگار چوہدری فرخ شہزاد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کا خیال ہے کہ عمران خان کے قریبی لوگ ہی ق لیگ اور PTI میں حالات میں خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ ق لیگ کو اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ حکومت میں ہونے کے باوجود ان کو نیب کی طرف سے پرانے کیس کھولنے اور نیب میں پیش ہونے کے نوٹس دیئے گئے جب انہوں نے احتجاج کیا تو حکومت نے یہ راستہ نکالا کہ ہائی کورٹ کے ذریعے چودھری برادران کو نیب سے کلیئر کرا دیا گیا۔سوال یہ ہے کہ عمران خان جو لاتعداد دفعہ لاہور آتے ہیں، انہوں نے آج تک اس سے پہلے چودھری شجاعت کے گھر جانے کی زحمت کبھی نہیں کی جب ان کے اقتدار کو خطرہ در پیش ہوا تو وہ فوراً وہاں پہنچ گئے۔ اندرون خانہ کہانی یہ چل رہی ہے کہ PDM کی طرف سے پریشر بڑھانے کے لیے سابق صدر آصف زرداری نے نواز شریف کو باور کرایا کہ چودھریوں کو ساتھ ملانا ناگزیر ہے۔ اس کے لیے زرداری صاحب کی تجویز یہ تھی کہ چودھری پرویز الٰہی کو نواز شریف کی طرف سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی آفر دی جائے معاملات طے پا جائیں تو ن لیگ عثمان بزدار کے خلاف پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کر دے جس میں ق لیگ اپوزیشن کا ساتھ دے گی تو بزدار کا تختہ الٹ جائے گا جس کے بعد اپوزیشن پرویز الٰہی کو مشترکہ امیدوار کے طور پر پیش کرے گی۔ یہ تجویز بظاہر قابل عمل تھی اسی دوران نواز شریف کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔
چودھری شجاعب حسین کئی ہفتوں سے بیمار تھے مگر عمران خان کے پاس ان کی عیادت کا وقت نہیں تھا جیسے ہی نیوز بریک ہوئی کہ چودھری شجاعت نے نواز شریف کی والدہ کے انتقال پر ان کے ساتھ فون پر تعزیت کی ہے تو بنی گالہ میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں کہ یہ زرداری فارمولے پر عمل درآمد کی ابتدا ہے۔ عمران خان فوری طور پر حرکت میں آئے اور لاہور کے دورے کا اہتمام کیا گیا جس کا اصل ایجنڈا چودھری شجاعت حسین کے ساتھ ملاقات تھی ق لیگ سیاست میں ایک دفعہ پھر اپنا لوہا منوانے میں کامیاب ہو گئی۔ اطلاعات ہیں کہ اس ملاقات کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان بداعتمادی کی فضا ختم ہو گئی ہے لیکن عملاً اس کا مظاہرہ ابھی باقی ہے ملاقات میں عمران خان کو باور کرایا گیا ہے کہ آپ کو ناکام کرنے میں آپ کے قریبی حلقوں کا دخل ہے اور انہیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہمارے ساتھ چلنا ہے تو برابری کی بنیاد پر چلنا ہو گا اور برابری کا تقاضا یہ ہے کہ عمران خان بقلم خود فیصلہ سازی میں براہ راست چودھری برادران سے مشاورت کیا کریں۔حالات و واقعات اس امر کی شہادت دے رہے ہیں کہ عمران خان اس وقت PDM کو کافی سنجیدگی سے لے رہے ہیں ورنہ ان جیسا ضدی شخص کبھی خود چل کر چودھری برادران کے گھر نہ جاتا۔ اس کی ضمنی وجوہات میں شاید حکمرانی کے مسائل بھی ہیں جس میں آٹا چینی پٹرول بحران جیسی بہت سی ناکامیابیاں ان کی CV کا حصہ بن چکی ہیں۔ عمران خان کے
قریبی ساتھی ان کے لیے اکثر مسائل پیدا کرتے ہیں چینی بحران میں جہانگیر ترین آٹا بحران میں رزاق داؤد کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے پیچھے علی زیدی اور اس طرح دیگر مواقع پر فیصل واوڈا اور مراد سعید کے نام شامل ہیں اس میں پرویز خٹک اور فواد چودھری کے علاوہ ایک طویل فہرست ہے جو انہیں کس نہ کسی انداز سے شرمندگی پر مجبور کرتی ہے۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جس طرح وہ چودھری شجاعت کے گھر چلے گئے ہیں اسی طرح نوازشریف کی والدہ کی تعزیت کے لیے رائے ونڈ چلے جائیں تو انہیں PDM سے نجات مل جائے گی مگر اس کا امکان بہت کم ہے کیونکہ ان کی ذہنی کیفیت اس وقت یہ ہے کہ بقول شاعر۔۔ملے کوئی بھی تیرا ذکر چھیڑ دیتے ہیں۔۔ان سے کسی بھی طرح کا گورننس مہنگائی معیشت یا کوئی بھی مسئلے پر کسی حکومت کمزوری کی نشاندہی کی جائے تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ NRO نہیں دوں گا۔ گویا بات کہیں اور کی ہوتی ہے مگر ختم NRO پر ہوتی ہے۔ آصف زرداری اس لحاظ سے زیرک سیاستدان تھے کہ وہ تمام تر مشکلات کے باوجود اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے، ان کے برعکس موجودہ حکومت کا کاروبار اشتعال انگیزی پر چل رہا ہے چن چن کر ایسے لوگوں کو وزیر اور مشیر لگایا جاتا ہے جو اپوزیشن پر زیادہ سے زیادہ کیچڑ اچھال سکیں۔ اس سے تحمل، برداشت، رواداری اور مروت کی روایات دم توڑ رہی ہیں اور تنقید برداشت کرنے کے اصولی مؤقف کی نفی ہو رہی ہے جس سے سیاست میں تشدد کا عنصر غالب آ رہا ہے۔ گلگت بلتستان الیکشن اس کی واضح مثال ہے۔