لاہور (ویب ڈیسک) پاکستان ٹیلی ویژن نے جب یہ اطلاع نشر کی کہ وزیر اعظم نواز شریف نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کو ریٹائر کر کے جنرل ضیا الدین کو یہ منصب سونپ دیا ہے تو پاکستان کے عوام اور خاص طور پر ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی بہت سی
فوجی چھاؤنیوں میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی اور سینیئر فوجی افسران ایک دوسرے سے رابطے میں مصروف ہو گئے کہ اب کیا کرنا ہے؟نامور صحافی فاروق عادل بی بی سی کے لیے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کراچی کے ڈائریکٹر کرنل اشفاق حسین نے اپنی کتاب ’جنٹلمین استغفراللہ‘ میں ان رابطوں کی تفصیل بیان کی ہے۔واقعات کی ترتیب کے اعتبار سے پہلا فون فائیو (کراچی) کور کے چیف آف سٹاف بریگیڈیئر طارق سہیل نے کور کمانڈر جنرل عثمانی کو کیا جنھوں نے اپنے باس کو فوج کی کمان میں کی جانے والی تبدیلی سے آگاہ کیا۔ بریگیڈیئر طارق کو یہ اطلاع ٹیلی ویژن سے ملی تھی۔جنرل عثمانی کو دوسرا فون وزیر اعظم ہاؤس سے کسی نے کیا جس میں انھیں بتایا گیا کہ وزیر اعظم کو آپ کے علیل بیٹے کی صحت کے بارے میں بہت تشویش ہے اور اگر آپ چاہیں تو علاج کے لیے اسے بیرون ملک بھجوایا جاسکتا ہے۔جنرل عثمانی کو تیسرا فون چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل محمود نے کیا اور اُن سے مشورہ چاہا کہ اب کیا کیا جائے؟ مسلح افواج کے ان دونوں ذمہ داران کے درمیان ہونے والی بات چیت مختصر لیکن واضح تھی جس کے بعد جسے بھی جو کرنا تھا، اس کے ذہن میں کوئی ابہام باقی نہ رہا۔اس فون کال کے دوران جنرل عثمانی نے جنرل محمود سے سوال کیا: کیا ایسی صورتحال کے بارے میں جنرل مشرف نے کچھ ہدایات دی تھیں؟جنرل محمود: جی۔جنرل عثمانی: بس تو پھر ان ہدایات پر عمل کیا جائے۔
جنرل عثمانی اور جنرل محمود کے درمیان ہونے والے اس مکالمے سے اس تاثر کی نفی ہوتی ہے کہ فوج اقتدار سنبھالنے کے لیے تیار نہ تھی۔ اس سلسلے میں جنرل مشرف کے کئی بیانات بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔اپنی کتاب ’سب سے پہلے پاکستان‘ میں بھی انھوں نے کچھ اسی قسم کی بات کی ہے لیکن اسی کتاب میں انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ جنرل عزیز جانتے تھے کہ اُنھیں کیا کرنا ہے۔ جنرل شاہد عزیز کو کیا کرنا تھا، اس کی تفصیلات انھوں نے اپنی کتاب ’یہ خاموشی کہاں تک‘ میں بیان کی ہیں اور لکھا ہے کہ نہایت احتیاط سے پورا منصوبہ تیار کر لیا گیا تھا جس کی تفصیلات قابل اعتماد جرنیلوں کے لیپ ٹاپ میں بھی موجود تھیں۔جنرل عثمانی کو چوتھا فون تھوڑی ہی دیر پہلے وزیر اعظم کی طرف سے نامزد کیے جانے والے چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاالدین نے کیا جنھوں نے اپنے تقرر نیز نئی تبدیلیوں سے آگاہ کرنے کے بعد انھیں ہدایت دی کہ وہ ایئر پورٹ پر جا کر جنرل مشرف کا استقبال کریں اور انھیں پورے احترام سے آرمی ہاؤس پہنچا دیں۔یہ فون بند ہوا ہی ہو گا کہ فون کی گھنٹی ایک بار پھر بج اٹھی، اس بار دوسری طرف وزیر اعظم نواز شریف کے ملٹری سیکریٹری بریگیڈیئر جاوید اقبال تھے۔ اُن کا پیغام مختصراور واضح تھا کہ جنرل پرویز مشرف کو پروٹوکول دینے کی کوئی ضرورت نہیں اور یہ کہ انھیں آرمی ہاؤس میں محبوس کر دیا جائے۔اوپر تلے ہونے والے ان رابطوں سے یہ تو واضح ہو گیا کہ آنے والے چند گھنٹوں میں جو کچھ بھی ہونا ہے
جنرل عثمانی کا کردار اس میں کلیدی ہے لیکن ایک ہی وقت میں متضاد اطلاعات، ہدایات اور خواہشات کے ہجوم میں خود جنرل عثمانی کے ذہن میں اس وقت کیا ہل چل مچ رہی ہو گی؟ اس کا ذکر کتاب میں نہیں ملتا، البتہ وہ ایک مختصر جملہ جو انھوں نے جنرل محمود سے کہا تھا، ان کے ذہن کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے، یعنی ’جنرل مشرف کی ہدایات پر عمل درآمد ہو گا۔‘لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کے برعکس راولپنڈی میں لوگوں کا ذہن ابھی واضح نہیں تھا وہ خاص طور پر جنرل محمود کا جو جنرل مشرف کے کراچی میں اترنے اور ان کے مقدر کے فیصلے کے انتظار میں تھے۔یہی وجہ رہی ہو گی کہ جب جنرل عثمانی نے جنرل محمود سے سوال کیا کہ انھوں نے اپنی طرف کیا اقدامات کیے ہیں تو انھوں نے نفی میں جواب دیا لیکن جب انھیں یقین آ گیا کہ جنرل عثمانی مکمل طور پر جنرل مشرف کے ساتھ ہیں اور حرکت میں آچکے ہیں تو وہ بھی متحرک ہو گئے۔راولپنڈی اور کراچی کے درمیان رابطوں کے دوران ہی جنرل عثمانی ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ آئی جی سندھ رانا مقبول اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس اکبر آرائیں وہاں پہلے ہی موجود تھے اور آپس میں محو گفتگو تھے۔’ہمیں ایئرپورٹ کا کنٹرول سنبھال لینا چاہیے۔‘ آئی جی نے اپنے نائب کو ہدایت کی۔’میرا خیال ہے کہ یہ مناسب نہیں کیونکہ فوج کے دستے یہاں موجود ہیں،اس لیے خطرہ ہے کہ کارروائی کے دوران کہیں تصادم نہ ہو جائے۔‘ ڈی آئی جی نے مشورہ دیا۔
جنرل عثمانی کے کان میں جیسے ہی یہ مکالمہ پڑا وہ خاموشی سے وہاں سے ہٹ گئے۔ اس کا مقصد شاید یہ تھا کہ پولیس کے اعلیٰ حکام اسی تاثر میں رہیں کہ فوج کی بھاری تعداد یہاں موجود ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔اسی دوران انھوں نے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل افتخار سے فون پر رابطہ کر کے انھیں دستوں سمیت ایئر پورٹ پر جلد پہنچنے کی ہدایت کی۔ جنرل عثمانی ایئرپورٹ کے راستے میں بھی ایک بار رابطہ کر کے انھیں یہ ہدایت کر چکے تھے لیکن ان کی ابھی تک یہاں آمد نہیں ہو سکی تھی۔جنرل عثمانی جنرل افتخار سے بات کر کے فوری طور پر ایئر ٹریفک کنٹرول پہنچ گئے۔ اسی دوران جنرل افتخار بھی وہیں پہنچ گئے۔ ایئرٹریفک کنٹرولر یوسف عباس نے جنرل افتخار کو بتایا کہ انھیں ہدایت کی گئی ہے کہ جہاز کا رُخ نواب شاہ کی طرف موڑ دیا جائے۔جنرل افتخار نے اپنا ہتھیار نکال کر اُن کی گردن پر رکھا اور حکم دیا کہ وہ پائلٹ سے ان کی بات کروائیں۔جنرل افتخار کے سٹاف افسر نے جنرل عثمانی کو نواب شاہ والی اطلاع فراہم کی تو انھوں نے نواب شاہ رابطہ کر کے متعلقہ یونٹ کو وہاں پہنچنے کی ہدایت کی لیکن وہاں متعین فوجی دستوں اور ایئر پورٹ کے درمیان فاصلہ زیادہ تھا، اس لیے ان کا وہاں بروقت پہنچنا ممکن نہ تھا جب کہ پولیس کی بھاری جمعیت نواب شاہ ایئرپورٹ پر موجود تھی جسے ہدایت تھی کہ جیسے ہی طیارہ اترے پرویز مشرف کو گرفتار کر لیا جائے۔
اس ہنگامی کیفیت میں فوری فیصلے کی ضرورت تھی کیونکہ جہاز نواب شاہ پہنچتا تو جنرل مشرف کی گرفتاری یقینی تھی، لہٰذا انھوں نے طیارے کا رُخ کراچی کی طرف موڑنے کی ہدایت کی۔اس دوران میں انھوں نے جنرل مشرف کو کاک پٹ میں بلا کر انھیں بھی صورتحال سے آگاہ کر دیا اور انھیں تسلی دلائی کہ حالات کنٹرول میں ہیں۔ جنرل مشرف اور جنرل افتخار کے پرانے گھریلو تعلقات تھے، اس لیے انھوں نے جنرل افتخار سے اپنے کتوں کے نام معلوم کر کے مزید تسلی کر لی کہ انھیں کہیں دھوکا تو نہیں دیا جا رہا، یوں جہاز بحفاظت کراچی میں اتر آیا۔جہاز لینڈ ہوا تو یہ جنرل مشرف ہی تھے جو سب سے پہلے باہر آئے، جنرل عثمانی اور دو تین دیگر افسروں نے سلیوٹ کر کے ان کا خیر مقدم کیا لیکن جنرل مشرف اس کے باوجود پراعتماد نہیں تھے۔کچھ سوچ کر انھوں نے جنرل عثمانی سے سوال کیا کہ جہاز میں ان کی اہلیہ بھی موجود ہیں کیا وہ طیارے سے باہر آ سکتی ہیں؟ جنرل عثمانی کا جواب اثبات میں تھا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے سٹاف افسر میجر ظفرکو ہدایت کہ وہ بیگم صاحبہ کو طیارے سے باہر لائیں۔اس دوران وہ جنرل مشرف کو لے کر وی آئی پی لاؤنج پہنچ گئے جہاں تازہ دم ہونے کے لیے وہ فوراً ہی واش روم چلے گئے۔ جنرل مشرف جیسے ہی فریش ہو کر باہر آئے، جنرل عثمانی کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی اور انھوں نے کہا: ’مجھے ہدایت کی گئی ہے کہ آپ کو گرفتار کر لیا جائے۔‘
یہ سُن کر جنرل مشرف کے چہرے پریشانی عیاں ہو گئی، اُن کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے جنرل عثمانی نے فوراً ہی انھیں اطمینان دلاتے ہوئے کہا: ’بے فکر رہیں سر! حالات قابو میں ہیں۔‘اس کے بعد وہ انھیں باہر لائے اور انھیں ان کی گاڑی پر سوار کرا دیا، گاڑی پر چیف آف آرمی سٹاف کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔گویا ایک مرحلہ کامیابی سے طے ہو چکا تھا، اب ایک نئی مہم درپیش تھی۔کور ہیڈ کورٹر پہنچنے تک جنرل پرویز مشرف اپنے ذہن میں بہت سے فیصلے کر چکے تھے چنانچہ انھوں نے وہاں پہنچتے ہی ہدایت کی کہ ان کا خطاب نشر کرنے کے انتظامات کیے جائیں۔اس مقصد کے لیے آئی ایس پی آر کی مقامی قیادت یعنی کرنل اشفاق حسین کی تلاش شروع ہوئی، وہ ابتدائی چند گھنٹوں تک راولپنڈی میں آئی ایس پی آر کی مرکزی کمانڈ سے ہدایات حاصل کرنے کے لیے رابطوں کی کوشش میں ناکامی کے بعد کور کمانڈر کی رہائش گاہ فلیگ سٹاف ہاؤس اور آرمی ہاؤس سے ہوتے ہوئے کور کمانڈر آفس پہنچے تو انھیں معلوم ہوا کہ تقریر لکھی جا رہی ہے، چنانچہ وہ اسے نشر کرانے کے انتظامات میں مصروف ہو گئے۔انھوں نے پی ٹی وی کو ریکارڈنگ ٹیم کور ہیڈکوارٹر بھیجنے کی ہدایت تو ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز اطہر وقار عظیم نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ کام اسی صورت میں ممکن ہے اگر وہ خود وہاں پہنچ کر اس کے انتظامات کریں۔اس وقت فوج نے پی ٹی وی کراچی ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ اس صورت حال میں کسی کا اندر جانا اور باہر نکلنا ناممکن تھا۔ کرنل اشفاق وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ٹی وی کا عملہ گذشتہ کئی گھنٹوں سے وہاں بھوکا پیاسا محصور تھا، انھوں نے غیر ضروری عملے کے وہاں سے نکلنے کے انتظامات اور دیگر لوگوں کے کھانے پینے کا بندوبست کیا اور ہدایت کی کہ ٹیلی ویژن سے یہ اعلان نشر کیا جائے کہ جنرل مشرف کچھ دیر کے بعد قوم سے خطاب کریں گے۔