ایک بڑھیا نے اپنے بیٹے کے لیے رشتہ دیکھ رہی تھی رشتہ دیکھتے دیکھتے یہ ان کا ساتواں گھر تھا۔ اس بار بوڑھیا اپنے ساتھ اپنی بیٹی کو بھی لے گئی تھی۔ بسکٹ کو چائے میں ڈبوتے ہوئے اپنی بیٹی سے آہستہ سے پوچھا بیٹی نے جواب دیا کہ اماں جی مجھے یہ لڑکی بہت پسند ہے۔ بڑھیا نے بیٹی کی ماں کی طرف دیکھا اور کہا کی لڑکی تو مجھے بھی پسند ہے۔ لیکن لگتا نہیں ہے کہ لڑکی کی ماں میرے باراتیوں کو کھانا بھی دیں سکیں لڑکی کی ماں کی طرف طنزیہ انداز میں دیکھ کر کہا۔
ہم اپنے مہمانوں کے سامنے شرمندہ ہوں گے میں اپنے رشتہ داروں کو کیسے بتاوں گی۔ کہ یہ ہمارے نئے رشتہ دار ہیں،اتنا کہہ کر بڑهیا اپنی بیٹی سےبولی اٹهو چلیں یہ ہمارے سٹیٹس کے نہیں ہیں۔ بڑهیا نے محض ایک بات کی تهی مگر اس ماں بیٹی کو تو باتوں سے ہی خنجر مار کر چهلنی کر دیا تها۔ وہ دونوں تو دل ہی دل میں اپنی بے بسی اور غریبی پر رو رہیں تهیں، بڑهیا صدیوں یاد رہنے والی باتیں بڑے دهیمے لہجے میں سنا کر چلی گئ۔ وقت گزرتا گیا، آج وہ والی بڑهیا کہ آواز نہیں تهی، آج وہ شہرت والا لہجہ نہیں تها، آج وہ غرور خاک میں مل گیا تها۔ پوچها بڑی بی،آج اداس لگ رہی ہیں،آپ کو بیٹے کےلئے بہو تو مل گئ نا اونچے خاندان کی جنہوں نے بارات کو اچها کهانا دیا ہو۔ اتنا کہنا تها تو اس کی زبان جیسے گنگ ہو کر رہ گئ، آج اس کی سسکیاں نکل رہیں تهیں۔ سسکیاں لیتے ہوئے بولی بیٹا،امیر فیملی کی بہو بهی مل گئ تهی، بارات کو کهانا بهی اچها دیا تها، رشتہ داروں میں میری عزت بهی بڑهی تهی، مگرآج میرا بیٹا بهی نہیں میرے پاس میرا پوتا بهی نہیں میرے پاس بہو کہتی ہے تمہارے اس گاوں میں میرے بچوں کا دم گهٹتا ہے۔
ان کی پرورش اور تعلیم میں خلل آئے گا، اور میرے رشتہ دار آتے ہیں تو مجهے شرم آتی ہے ان کو اس گهر میں لاتے ہوئے،اور وہ میرے بیٹے کو لے کر بڑے شہر چلی گئ ہے اب تو میرا بیٹا فون بهی نہیں کرتا ترس جاتی ہوں کہ اپنے بیٹے کو دیکهوں اپنے پوتے کو دیکهوں مگر وہ تو سالوں بعد بهی نہیں آتے،جس کا کوئ نہیں ہوتا اس کا اللہ ہوتا ہے اور وہ بہترین انتقام لینے والا ہے اور وہ غریبوں کہ سنتا ضرور ہے، اس کے بعد بڑهیا رو رہی تهی اور میری کال بند ہو گئ،اپنے لہجوں سے کسی غریب و لاچار کو چهلنی مت کرو، آہ سے ڈرو اور یاد رکهو اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے، یہ سب چیزیں آنے جانے والی ہے اور اللہ تعالی کو غرور بالکل پسند نہیں ہے۔ کیونکہ غرور کا مالک صرف وہی اللہ ہے کہ جس نے دنیا کو پیدا کیا۔ اور آخرت کو پیدا کیا۔ انسان کو چاہیے کہ وہ آج بھی کرے اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرے اپنے مال و دولت پر کہ اللہ تعالی نے اس پر بڑا رحم و کرم کیا ہے۔ کیوں کہ یہ مال و دولت جس نے دیا ہے۔ اس سے لی بھی سکتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں غرور وار شرک سے بچائے۔