لاہور (ویب ڈیسک) اقبال ؒ کی اردو شاعری ہے کہ فارسی کلام آپ کی دانش امتِ مسلمہ کو اس بات کا ادراک دیتی ہے کہ نبی کریم ﷺ کا عشق ہی مسلم دلوں کو طاقت اور حرارت بخشتا ہے ایمان کی طاقت سچے جذبوں کی حرارت جس میں رعنائیاں ہیں جس سے حیات خوشگوار
موڑ لیتی ہے۔ نامور صحافی ندیم اختر ندیم اپنی ایک خصوصی تحریر میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اقبال ؒ روحِ محمد ؐ کو مسلمانوں کے جسم و جاں میں سرائیت کر کے غیر اللہ کے خوف سے نجات دلاتے ہیں،جس کے جسم و جاں میں روح ِ محمد ﷺ آگئی اسکی دنیا ہی سنور گئی اس کی ہستی ہی نکھر گئی اقبال ؒ کی شاعری نبی کریم ؐ کی محبت کی معراج ہے آپ ﷺ کے عشق کا فیض ہے اقبال ؒ ہمیں اس طرف بھی لاتے ہیں کہ جوبھی سرکار دوعالم ؐ کے پیغام سے دور ہوا وہ گمنامیوں اور ناکامیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرا پھر اسے زوال نے آ لیا اقبال ؒ عشق کی قوت کے معجزے بھی بتاتے ہیں کہ ۔۔قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے۔۔دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دے۔۔اقبالؒ خواہاں ہیں کہ مسلم نوجوان عشق رسول ﷺ سے اپنا مقدر بدلے اقبال ؒ کی شاعری میں جو فکر اور بصیرت ہے وہ ہمیں دنیا میں بھٹکنے سے بچاکرسیدھی راہ دکھاتی ہے، ایسی راہ جس پر چل کر ہم مسائل سے نجات پائیں مصائب سے پیچھا چھڑائیں امت مسلمہ کی زبوں حالی پر اقبال ؒ نبی کریم ﷺ سے عرض گذار ہیں۔ اقبال ؒ مغربی تہذیب کی ہلاکت انگیزیاں بتا کر فلاح و بقا کا راستہ دکھاتے ہیں اور وہ راستہ سرکار کریم ﷺ کے دامن سے گہری وابستگی ہے اقبال ؒ انسانی فکر و عمل کی قوتوں کو تیز کرنے کی کوششوں میں ہے نبی کریم ﷺ کے عشق کے ساتھ اقبال ؒ قرآن کریم کو رہنما بنانے کی
تلقین کرتے ہیں عشق رسول ؐ اور عشق قرآن سے لولگانے کا درس دیتے ہیں اقبالؒ کو قرآن کریم سے حد درجہ محبت تھی قرآن کریم نے آپکے افکار کو جلا بخشی آپ کسی بھی حالت میں قرآن سے دل لگائے رہتے اقبال ؒ روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور قرآن کریم پر غور فرماتے قرآن کریم کو پڑھتے ان پر ایک وجد طاری ہوجاتا قرآن کریم آپ کا سرمایہ حیات ہے آپ زندگی کے ہر مسئلے کے لئے قرآن کریم سے رہنمائی لینے کا کہتے ہیں قرآن کریم آپکی تعلیم ہے بچپن سے ہی علی الصبح قرآن کریم کی تلاوت کے لئے ادب سے بیٹھتے خوش الحانی سے تلاوت کرتے،قرآن کریم کو ٹھہر ٹھہر کر ایسے پڑھتے کہ ہر لفظ پر غور فرماتے اور آیات و الفاظ کے معانی یاد کرتے ہیں علامہ اقبال کہتے ہیں سیالکوٹ میں والد ماجد نے کہا کہ جب تم قرآن پڑھو تو یہ سمجھو کہ قرآن تم ہی پر اتر رہا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ خود تم سے ہم کلام ہے“۔ ڈاکٹر اقبال ؒکہتے تھے کہ ان کی یہ بات دل میں ایسے اتری کہ اس کی لذت ہنوز دل وجاں میں پاتا ہوں نیک سیرت باپ نے ایک دن بیٹے سے کہا کہ:”میں نے تمہارے پڑھانے میں جو محنت کی ہے تم سے اس کا معاوضہ چاہتا ہوں“قابل بیٹے نے بڑے شوق سے پوچھا کہ وہ کیا ہے تو باپ نے کہا میری محنت کا معاوضہ یہ ہے کہ تم”اسلام کی خدمت کرنا“بس پھر اسکے بعد اقبال ؒکی اسلامی شاعری بام عروج تک پہنچی اوراوج کمال حاصل کیا اقبالؒ فرماتے ہیں والد زندگی کے آخری ایام میں علیل ہوئے تو ان کو دیکھنے کے لئے لاہور سے جاتا۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ والد بزرگوار، آپ سے جو میں نے اسلام کی خدمت کا عہد کیا تھا وہ پورا کیا یا نہیں؟ باپ نے گواہی دی کہ میری جان تم نے میری محنت کا معاوضہ ادا کر دیا۔