لاہور (ویب ڈیسک) وزارتِ اطلاعات سے فیاض الحسن چوہان صاحب کی رخصتی اور فردوس عاشق اعوان صاحبہ کی آمد سب کے لیے کافی حیرت کا باعث بنی ہے۔ وزارتِ اطلاعات سے سبکدوشی کی خبر سننے کے بعد حیرت خود فیاض الحسن چوہان صاحب کے چہرے سے بھی عیاں تھی۔ کہاں تو وہ یہ دعوے کررہے تھے
کہ دسمبر میں اپوزیشن کا صفایا ہوجائے گا۔ نامور کالم نگار سہیل احمد قیصر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن انہیں یہ معلوم ہی نہ ہوسکا کہ اُن کے ساتھ نومبر میں ہی ہاتھ ہوجائے گا۔ بظاہر تو وہ بہت جانفشانی سے اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے اور ہرروز ایک پریس کانفرنس کرنا اُنہوں نے خود پہ لازم قرار دے رکھا تھا۔ اِن کانفرنسز میں وہ ”حکومتی معیارِ گفتگو‘‘ کے عین مطابق اپوزیشن کے خوب لتے لیتے تھے۔ اتنی فعال شخصیت کہ خود وزیراعظم عمران خان کئی مواقع پر ان کی تعریف کرچکے ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ ابھی کچھ روز پہلے اُنہوں نے ایک اجلاس کے دوران دوسرے وزرا کے سامنے فیاض الحسن چوہان کی مثال دی تھی۔ یہ تعریف سننے کے بعد تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ اُن کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ جو دور‘دراز کی کوڑیاں لاتے ہوئے نہیں تھکتے تھے، جو دوسروں کی قسمت کا حال بتانے کے لیے ہر روز اپنی صلاحیتوں کے بھرپور جوہر دکھاتے تھے، اُنہیں خود ہی یہ خبر نہ ہوسکی کہ اُن کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے۔ میڈیا پرسنز سے اُنہیں اپنے عہدے سے ہٹائے جانے کی خبر ملنے پر جو ان کے چہرے پر اُبھرنے والے تاثرات تھے‘ وہ سب کو تادیر یاد رہیں گے۔ بے یقینی اور تاسف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ وہ یہ تک نہ بتا سکے کہ اُن کے ساتھ یہ کیوں اور کیسے ہوگیا۔ یہی کچھ اِس سال ماہِ اپریل میں بھی ہوا تھا۔ اُس وقت تب کی وفاقی وزیراطلاعات کو یکایک اطلاع ملی تھی
کہ اُنہیں ان کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا گیا ہے‘ تب وہ حکومت کے خلاف پریس کانفرنس کرنے والی تھیں لیکن بمشکل اُنہیں اِس سے باز رکھا گیا‘ بہرحال اب اُنہیں اِس وفاداری کا صلہ پنجاب میں مل چکا ہے۔ اب جانے والوں کا یہ کہنا ہے کہ اُن کی سبکدوشی سے سب سے زیادہ خوشی را اور بھارت کوہوئی ہے‘ آنے والے یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ اُن کی تقرری اپوزیشن پر بجلی بن کر گری ہے۔ خیر پنجاب میں آنے والی یہ تبدیلی خاصی اہم قرار دی جارہی ہے۔گزشتہ دوسالوں سے تو تبدیلیوں نے کچھ زیادہ ہی رفتار پکڑ لی ہے۔ کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کب کون کس عہدے سے فارغ کردیا جائے۔ وزیراعظم کی ایک اہم وزیرکے ساتھ ملاقات ہوتی ہے، وزیر صاحب پر بھرپوراعتماد کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن ٹھیک تین گھنٹوں کے بعد اُنہیں عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔یہی حالات بیوروکریسی کے دکھائی دے رہے ہیں۔ پنجاب میں مختصر سے عرصے کے دوران متعدد چیف سیکرٹریز اور آئی جیز کی تبدیلی نے بھی غلغلہ مچارکھا ہے۔ بظاہر تو یہی محسوس ہورہا ہے کہ تبدیلیوں کا یہ عمل ابھی رکنے والا نہیں ہے‘ کچھ مزید شخصیات بھی اِن تبدیلیوں کی زد میں آسکتی ہیں۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جب انسان کو طاقت ملتی ہے تو پھر اُسے اِس کے استعمال کا طریقہ بھی آنا چاہیے۔ جوشِ جذبات میں اتنا زیادہ آگے نہیں نکل جانا چاہیے کہ بعد میں پچھتاوے کا احساس ہوتا رہے۔ الفاظ کے چناؤ میں احتیاط شائستہ انسان کی پہچان ہوتی ہے۔ انسان گفتگو کرے تو سننے والے کو لطف آئے‘ ضروری نہیں کہ ہروقت ہروقت لٹھ لے کر چڑھتا دکھائی دے ۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہمارے مقدر میں ہے‘ وہ ہمیں مل کر ہی رہے گا تو پھر اِس بات پر یقین بھی رکھنا چاہیے۔ ضروری نہیں کہ بڑوں کو خوش کرنے کے لیے شائستگی کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا جائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اُس کے ساتھ کب کیا ہوجائے لیکن اگر انسان دورانِ اقتدار بھی اپنی حدود میں رہے تو اُس کے لیے عہدے آنے جانے والی چیز سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے… ہم جیسے مادہ پرست بھلا اِن باتوں کو کیا سمجھیں۔